Monday, January 9, 2017

ادھوری غزل


ایک پل کے لیے جدا بھی نہیں
اک زمانہ ہوا ملا بھی نہیں
کوئی زندہ ہے میری سانسوں میں
زندگی ہے مگر خدا بھی نہیں
حرف آخر ہے بندگی کا مری
اور اب اس سے آسرا بھی نہیں
مستقل قید کی سزا پائی
اس سے بہتر کوئی جزا بھی نہیں

Saturday, January 7, 2017

مدتوں سے تلاش تھی جس کی

مدتوں سے تلاش تھی جس کی
ایک بچے میں مل گیا آخر
گھر بنانا بڑے سلیقے سے
شام سے پہلے توڑ دینا اسے
ہم خدائی سمجھ رہے تھے جسے
اک جبلت تھی طفل مکتب سی

Saturday, April 23, 2016

असभ्य

मैं अपने कश्मीरी मेहमान प्रोफ़ेसर हबीब के साथ झारखंड की सैर को निकला था.

हमारा रुख़ एक झरना की तरफ़ था जो अपनी ख़ूबसूरती के लिए मशहूर है. हमारी गाड़ी बमुश्किल 20 किलोमीटर प्रति घंटा की रफ़्तार से चल रही थी.

रास्ते में एक तालाब मिला. उसमें कुछ आदिवासी महिलाएं स्नान और युवतियां अठखेलियाँ कर रही थीं.

अक्सर किसी सोच में गुम रहने वाले प्रोफ़ेसर ने हाथ के इशारे से गाड़ी की रफ़्तार कम करने को कहा.

"अगर हम तालाब की तरफ़ जाएं तो इन्हें कोई एतेराज़ तो नहीं होगा?" प्रोफ़ेसर ने नर्म लहजे में पुछा.

"नहीं, बिलकुल नहीं. ये लोग काफ़ी आज़ाद..." मेरी बात ख़तम होने से पहले ही प्रोफ़ेसर तालाब की तरफ़ बढ़ने लगा. मैं भी उसके पीछे-पीछे चलने लगा.

हम दोनों तालाब के किनारे खड़े थे. महिलाओं ने उचटती हुई निगाहों से हमारी तरफ़ देखा और स्नान में मसरूफ़ हो गईं.

वहां कुछ देर खड़े रहने के बाद हम वापस अपनी गाड़ी की तरफ़ आने लगे.

"ये महिलाएं कौन हैं?" रास्ते में प्रोफ़ेसर ने पुछा.

"जी, ये असभ्य आदिवासी महिलाएं हैं..." मेरा इरादा आदिवासी महिलाओं पर लम्बी तक़रीर का था, लेकिन प्रोफ़ेसर मेरी बातों से बेताल्लुक़ नज़र आने लगा, तो मैं चुप हो गया.

"कमाल है, इनका आत्मविश्वास किसी भी सभ्य समाज की महिलाओं से ज़्यादा है और तुम इन्हें असभ्य कह रहे हो?" प्रोफ़ेसर ने अचानक सवाल दाग़ दिया और मैं ख़ुद को कुछ भी न कह पाने की पोजीशन में पा कर ख़ामोश रहा.

झरने तक का बाक़ी रास्ता ख़ामोशी के साथ कटा.

गाड़ी सड़क किनारे पार्क करने के बाद हम जंगल में तक़रीबन 2 किलोमीटर सफ़र कर के झरने तक पहुंच गए. यहाँ एक दुनिया आबाद थी. सभ्य लोगों के छोटे-छोटे ग्रुप्स अपने-अपने तरीक़े से एन्जॉय कर रहे थे. मेरी नज़र कुछ विदेशी महिलाओं के एक ग्रुप पर जा टिकीं. महिलाएं झरने में स्नान का लुत्फ़ ले रही थीं.

अचानक प्रोफ़ेसर का ख़याल आया. मैं ने उसकी तरफ़ देखा तो उसे भी उधर ही आकर्षित पाया.

"एक बात बताओ, इनमें और उन आदिवासी महिलाओं में क्या फ़र्क़ है?"

प्रोफ़ेसर ने मेरे कंधे पर हाथ रखते हुए पुछा,

"जिस आत्मविश्वास के साथ ये गोरी महिलाएं नाममात्र कपड़ों में स्नान कर रही हैं उसी आत्मविश्वास के साथ वो आदिवासी महिलाएं भी कर रही थीं, नाममात्र कपड़ों में. तो फिर ये सभ्य और वो असभ्य कैसे?"

मैं बुत बना प्रोफ़ेसर की तरफ़ देखे जा रहा था. जहाँ कुछ महिलाएं इतने कम कपड़ों में नहा रही हैं, वहां इसे फ़लसफ़ा सूझ रहा है...

अभी मैं कुछ कहने ही वाला था कि प्रोफ़ेसर वापस जाने के लिए मुड़ गया. मैं न चाहते हुए भी उसके पीछे चल पड़ा.

Thursday, March 26, 2015

غزل : پوچھ کر اک سوال دیکھیں گے

پوچھ کر اک سوال دیکھیں گے
کون ہے ہم خیال دیکھیں گے
داغ کیسے مٹیں گے دامن سے؟
تیرے فن کا کمال دیکھیں گے
لغزش پا تو پہلے تھم جائے
پھر زمانے کی چال دیکھیں گے
گردش وقت پوری ہونے دے
کس کے سر ہے وبال دیکھیں گے
ایک دن ہم سکوت دریا میں
کوئی پتھر اچھال دیکھیں گے
کم ہی سمجھیں گے وہ محبت کو
لوگ تیرا جمال دیکھیں گے
سعد پگھلیں گے برف کی مانند
روشنی کا جلال دیکھیں گے

-------------------------------

पूछकर इक सवाल देखेंगे
कौन है हम ख़याल* देखेंगे

दाग़ कैसे मिटेंगे दामन से

तेरे फ़न का कमाल देखेंगे

लग़ज़िश-ए पा** तो पहले थम जाए

फिर ज़माने की चाल देखेंगे

गर्दिश-ए वक़्त*** पूरी होने दे

किसके सर है वबाल देखेंगे

एक दिन हम सुकूत-ए दरिया में

कोई पत्थर उछाल देखेंगे

कम ही समझेंगे वो मुहब्बत को

लोग तेरा जमाल**** देखेंगे

साद' पिघलेंगे बर्फ़ की मानंद'
रौशनी का जलाल***** देखेंगे
*like minded
**mistake of steps
***rotation of time
****Beauty
*****glory

Wednesday, February 11, 2015

ہاں، عام آدمی پارٹی سنگھ کا مہرہ ہے

انا تحریک سنگھ اسپانسرڈ تھی۔ عام آدمی پارٹی پر بھی مجھے یہی شبہ ہے۔ یہ صدی کی سب سے بڑی سیاسی سازش یا تجربہ کی کڑیاں ہیں۔۔۔ میرا ماننا ہے کہ ملک پر ہندوتو کو تھوپنے کی طویل کوششوں کے بعد سنگھیوں (آر ایس ایس قیادت) کو یہ ادراک ہو چکا ہے کہ ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ 31 فیصد لوگوں کو ہی وہ اپنے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ باقی آبادی یا تو دوسرے انتہا پسند نظریات سے جڑی ہوئی ہے (جس کی تعداد بہت کم ہے) یا پھر سیکولر ہے۔ اس بار لوک سبھا میں انہیں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ ان کی بلندی کی انتہا ہے۔ وہ چاہے جتنے دن بھی اس بلندی پر برقرار رہیں، آگے ان کے لئے پستی ہی ہے۔ اگر سیٹوں کی تعداد سے قطع نظر ووٹ فیصد کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی اکثریت نے انہیں رد کر دیا۔ اب زعفرانی خیمے میں اپنی سوچ کے تئیں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے، اور یہ زعفرانی خیمہ جسے لوگ عام طور پر مذہبی جنونیت کا شکار سمجھ بیٹھتے ہیں، وہ بالکل نہیں ہے جو نظر آتا ہے۔ یہ کسی بھی حال میں حکومت پر قبضہ جمائے رکھنے کا عزم رکھنے والے نسل وادیوں کی ایک ٹولی ہے، مذہبی انتہا پسندی تو ان کا مکھوٹا ہے۔



اب جب کہ خود ان کے ہی مذہب کو ماننے والوں کی اکثریت نے سیکولرازم کو اپنا سیاسی مذہب بنا لیا ہے، وہ اپنے اس مکھوٹے سے مایوس ہو چکے ہیں۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے اگلے 15-20 سالوں میں وہ ارریلیوینٹ ہو کر رہ جائیں گے۔ ایسی صورت میں انہوں نے اپنا ایک سیکولر چہرہ بھی بنانے کی سوچی۔ اس ضمن میں ان کی پہلی کوشش کانگریس کو یرغمال بنانے کی ہوئی (جس کی دلیلیں ہر اس شخص کے پاس ہوں گی جو معمولی سیاسی بصیرت بھی رکھتا ہو) جسے سونیا گاندھی نے اپنی بصیرت اور حکمت عملی سے ناکام کر دیا، اور جب یہ طے ہو گیا کہ کانگریس کی قیادت راہل گاندھی کی طرف شفٹ ہوگی تو وہ اس سے مایوس ہو گئے۔

یہاں سے کانگریس کے خلاف جنگ عظیم کی شروعات ہوتی ہے۔ وہی جنگ عظیم جسے انا تحریک کا نام دیا گیا اور جس سے ایک ساتھ کئی مقاصد حاصل ہوئے (کثیر مقاصدی حکمت عملی کے لئے برہمنی لابی مشہور بھی ہے)۔ اس تحریک سے کانگریس کا چہرہ بری طرح مسخ ہوا، حتیٰ کہ لوگ اس کے اچھے کاموں کے بارے میں بھی سننے کو راضی نہ تھے، لوگ تاریخ کے سب سے باصلاحیت وزیر اعظم کو سب سے ناکارہ وزیر اعظم ماننے لگے، کانگریس نے اپنی عوامی مقبولیت کھو دی، عام آدمی پارٹی کی شکل میں کانگریس کا ظاہری متبادل وجود میں آیا، اسی تحریک کے سبب پیدا ہوئی ناراضگی کے سہارے زعفرانیوں نے اپنے حق میں ووٹوں کا میکسیمم پولرائزیشن دیکھا اور پہلی بار ان کی اکثریت (31 فیصد) کی حکومت بنی۔

بہت جلد ہی (15-20 سالوں میں) بی جے پی سنگھ کا پٹا ہوا مہرہ ثابت ہو جائے گی۔ پھر کون ہوگا جو اس کا مکھوٹا بنے گا؟ اور کیا ایسی حالت میں اچانک کوئی مکھوٹا تیار بھی ہو سکتا ہے؟ ان حالات پر نظر ڈالیے، عام آدمی پارٹی کے شان نزول کا جائزہ لیجئے، دہلی الیکشن کو چھوڑ کر عام آدی پارٹی کی اب تک کی سرگرمیوں کا جائزہ لیجیے اور ان کے مستفید کو تلاش کیجیے، دہلی الیکشن میں بی جے پی کے اوٹ پٹانگ فیصلوں کا جائزہ لیجئے اور یہ معلوم کیجیے کہ ان کا فائدہ کسے ملا تو بہت کچھ آپ پر بھی واضح ہو جائے گا۔

اب آئیے اس نکتے پر نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح سنگھی لابی نے دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی مطلق جیت یقینی بنانے کے لئے راستے ہموار کیے:

- وہی بی جے پی اچانک فاش سیاسی غلطیاں کرنے لگی جو گزشتہ چند سالوں سے کافی نپے تلے فیصلے لے رہی تھی
- بی جے پی نے پارٹی کے کسی وفادار سپاہی کو وزیر اعلیٰ عہدہ کا امیدوار بنانے کی بجائے انا ہزارے کی ٹیم سے کرن بیدی کو متعارف کرایا، حالانکہ سیاست کا ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ سمجھ سکتا ہے کسی بھی پارٹی کے کارکنان خارجی امیدوار کو قبول نہیں کریں گے اور ہوا بھی یہی۔ خود بی جے پی کے لوگوں نے پارٹی کو ہرانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی
- عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے انتخاب کی بھنک لگتے ہی اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا، لیکن بی جے پی نے اس میں کافی تاخیر سے کام لیا، حتیٰ کہ نامنیشن سے چند روز پہلے بھی سارے امیدوار طے نہیں تھے
- عام آدمی پارٹی کو مسلمانوں اور ان کے خیرخواہوں کے بیشتر ووٹ ملے اور ان کے پولرائزیشن میں بی جے پی نے جو کردار ادا کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ دہلی میں کئی دہائیوں بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، رام زادے - حرام زادے کی بات کی گئی وغیرہ وغیرہ
- عام آدمی پارٹی کو اگروال سماج کے بیشتر ووٹ ملے ﴿یہ دہلی میں تقریباً بیس فیصد ہیں﴾۔ ان کے ووٹوں کے پولرائزیشن کا موقع بھی کیجریوال کو بی جے پی نے ہی فراہم کیا، وہ بھی بڑی چالاکی سے۔ میرے خیال سے بی جے پی کا وہ اخباری اشتہار سبھوں کو یاد ہوگا جس میں عاپائیوں کو "اپدروی گوتر" کا کہا گیا تھا، جسے کیجریوال نے اپنے آپ کو اگروال سماج کا بتاتے ہوئے اپنے گوتر سے منسوب کر دیا اور اگروال سماج کیجریوال کے ساتھ ہو گیا
- نریند مودی نے اپنی انتخابی تقریر میں کیجریوال کو نکسلی کہا اور جنگل جانے کی نصیحت دے ڈالی۔ نتیجتاً بائیں بازو نے عام آدمی پارٹی کو اعلانیہ حمایت دے دی
- کیجریوال نے بی جے پی کے سورسیز سے ہی جانکاریاں حاصل کر کے خود اسی کے لیڈروں کو بے نقاب کیا، کیسے؟

مجھے نہیں لگتا کہ اتنی ساری سیاسی غلطیاں اس بی جے پی سے بیک وقت ہو سکتی ہیں جس کی باگ ڈور امیت شاہ اور نریند مودی کے ہاتھوں میں ہے۔

ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سنگھیوں نے جو مقصد طے کیا ہے وہ انہیں حاصل ہو ہی جائے، یہ ضروری نہیں۔ کیونکہ سیاست میں کبھی کبھی اپنے ہی پیادے کھلاڑی کو مات دے دیتے ہیں۔ آپ اپنے پلان پر کنٹرول کر سکتے ہیں، نتائج پر نہیں، اور پھر یہ کہ جمہوری سیاست میں لیڈر اپنے ووٹر کا آئینہ دار ہوتا ہے اور کیجریوال جب بھی جیتیں گے، سیکولر ووٹو سے ہی جیتیں گے۔ آئیے، انتظار کرتے ہیں!

Monday, January 12, 2015

کیا مسلمانوں کو دہشت گردی مخالف عالمی مظاہرہ کرنا چاہئے؟

دو دنوں پہلے میں نے فیس بک پر ایک سوال کیا تھا کہ کیا مسلمانوں کو دہشت گردی کی مذمت کے لئے عالمی پیمانے پر کوئی مظاہرہ منعقد کرنا چاہئے؟ کئی جوابات موصول ہوئے، جن میں مثبت اور منفی دونوں تھے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ ہمیں اپنی تنگ نظری اور جذباتیت کے لحاف سے اب باہر نکلنا چاہئے۔ لیکن ہوشیاری سے۔ جذباتیت ہماری کمزوری ہے۔ مخالفین اس کا استعمال ہمیشہ سے ہمارے ہی خلاف کرتے آئے ہیں۔

دہشت گردی کے معاملہ میں آج مسلمانوں کو جذباتی بنیادوں پر دو گروہوں میں بانٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک وہ جو تنگ نظر ہے، ہر وہ کام جس میں مسلمان ملوث ہے اس کی حمایت کرتا ہے اور اسے اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔ دوسرا وہ جو روشن خیال ہے، یا مذہب کے نام پر ہونے والے تماشوں سے اوب چکا ہے اور اب اس کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹنے کی خواہش رکھنے والی طاقتوں کی اصل نظر تیسرے قسم کے مسلمانوں پر ہے اور وہ انہیں ان دونوں میں سے کسی ایک میں ضم ہوجانے کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ تیسرے قسم کے مسلمان وہ ہیں جو کسی حد تک عالمی سیاست کو سمجھتے ہیں۔ مذہب کے نام پر ہونے والے تماشوں کی باریکیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔۔۔

اب واقعہ یہ ہے کہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، آپ کے مخالفین (اور کچھ سادہ لوح غیر مسلم/مسلم) آپ پہ چڑھ دوڑتے ہیں کہ دیکھوں تمہارے بھائی نے یہ کیا کیا۔ اس پر تہمارا رد عمل کیا ہے؟ کیا تم اس کی مذمت کرتے ہو؟ اگر ہاں، تب تو ٹھیک ہے، ورنہ آپ بھی طالبانی، داعشی وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ آپ اس طرح کے الزامات سن کر پریشان ہو جائیں گے (میں تو ہو گیا تھا)۔ اس طرح سے آپ کو بار بار ٹارچر کیا جائے گا (شارلی ابدو واقعہ کے بعد اس کی ساری حدیں پار کر دی گئیں) اور آپ پریشان ہو کر مذکورہ بالا دونوں میں سے کسی ایک گروہ میں ضم ہو جائیں گے اور ہر دو صورت میں آپ دہشت گرد یا اس کے بھائی کہلائیں گے۔

اس پیچیدہ صورتحال میں ہمیں بے انتہا صبر کا مظاہرہ کرنے کی ضروت ہے۔ رہا سوال دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ کا، تو اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہونے والا، کیونکہ وہ آپ سے صرف اتنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔

عالمی پیمانہ پر تو مجھے معلوم نہیں، لیکن کل ہند پیمانے پر ماضی میں مسلم علماء نے دہشت گردی کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ آپ دارالعلوم دیو بند کے زیر اہتمام منعقد دہشت گردی مخالف اجلاس کو نہیں بھولے ہوں گے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟؟؟ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے!!!

خلیج میں کمانے والوں سے دو باتیں

آج میں آپ کی توجہ آئندہ ایک سے دو سالوں کے اندر دنیا میں آنے والے شدید مالی بحران کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں، جس پر پہلے سے ہی ماہرین معاشیات میں بحث چل رہی۔ ظاہر ہے کے اس بحران سے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور دیگر ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ روس تو پہلے ہی اس کا شکار ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی میرا کنسرن عالمی یا ملکی پیمانے پر اس کا اثر نہیں ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے اپنے گھر، خاندان اور ساتھ میں نشست و برخاست کرنے والے لوگ اس سے کس حد تک متاثر ہوں گے۔


 یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خوشحال طبقہ کی بڑی تعداد کا چولھا خلیج کی آمدنی سے جلتا ہے۔ اگر آپ کا چولھا بھی ان میں ہی شامل ہے تو ہوشیار ہوجائیے! مجھے امید ہے کہ آپ تیل کی دنیا میں آئی مندی سے واقف ہوں گے۔ اگر ہاں، تو اس سے بھی واقف ہوں گے کہ یہ مندی امریکہ سمیت 10 سے زیادہ ممالک میں "شیل آیل" کی دریافت کے سبب آئی ہے۔ اس مندی میں ملوث حکمت اور سیاست سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ اگلے چند سالوں میں تیل کے قبلے منتشر ہو جائیں۔ دنیا میں تیل کے جتنے خریدار ہوں گے اتنے ہی سپلایر بھی ہوں گے، ایسی صورت میں سب سے سستی قیمت پر تیل فروخت کرنے والا ملک ہی فاتح کہلائے گا، جو کہ سعودی عرب یا کوئی دوسرا خلیجی ملک نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان کی لاگت شیل آیل نکالنے والے ممالک کی لاگت سے بہت زیادہ ہے۔

اس صورتحال کا براہ راست منفی اثر خلیج کی معیشت، اور مثبت اثر متحدہ امریکہ اور کچھ دیگر ممالک پر پڑنے والا ہے۔ خلیجی حکومتیں بشمول سعودی عربیہ بڑے پیمانے پر اپنی معاشی پالیسی میں تبدیلی کریں گی (جس کا آغاز بھی ہو چکا ہے)۔ آنے والے دنوں میں وہاں بڑے پیمانے پر چھٹنی ہو سکتی ہے۔ ناگذیر اسامیوں پر خارجیوں کو مقامیوں سے تبدیل کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان کے پس منظر میں سب سے بڑا اثر مسلم کمیونٹی پر پڑنے کی امید ہے۔

تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت میں مارے جائیں۔ خطرے سے مقابلہ کرنے کا پہلا قدم خطرے کی واقفیت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ فیملی جس کا چولہا گلف کی آمدنی سے جلتا ہے، ابھی سے حکمت عملی تیار کرنا شروع کردے۔ خود روزگار اس کا بہترین متبادل ہو سکتا ہے۔