غزل
درسےان کےبھگائےجاتےہیں
اب کہاں ہم بلائےجاتےہیں
پہلےنظریں ملائی جاتی تھیں
آج دامن بچائےجاتےہیں
مرکےسوبارجی چکےپھربھی
وہ ہمیں آزمائےجاتےہیں
مصلحت سےبنےتھےجورشتے
ہم انہیں بھی نبھائےجاتےہیں
یاد آتی ہےجب کبھی تیری
ساری دنیابھلائےجاتےہیں
دن تری فکرمیں گزرتاہے
اشک شب میں بہائےجاتےہیں
سعد پتھرکی ایک مورت کو
اپنےدل کی سنائےجاتےہیں