Tuesday, December 21, 2010

Dar se unke bhagaae jaate haiN


غزل

درسےان کےبھگائےجاتےہیں
اب کہاں ہم بلائےجاتےہیں

پہلےنظریں ملائی جاتی تھیں
آج دامن بچائےجاتےہیں

مرکےسوبارجی چکےپھربھی
وہ ہمیں آزمائےجاتےہیں

مصلحت سےبنےتھےجورشتے
ہم انہیں بھی نبھائےجاتےہیں

یاد آتی ہےجب کبھی تیری
ساری دنیابھلائےجاتےہیں

دن تری فکرمیں گزرتاہے
اشک شب میں بہائےجاتےہیں

سعد پتھرکی ایک مورت کو
اپنےدل کی سنائےجاتےہیں

Thursday, December 9, 2010

UnwaN tera, charcha tera, baateN teri

غزل

عنواں ترا، چرچا ترا، باتیں تری
تونہیں توساتھ ہیں یادیں تری

سیکڑوں عنواں ہیں تیرے ذکرکے
چہرہ ترا،زلفیں تری،آنکھیں تری

ان پناہوں سےتوعمدہ کچھ نہیں
سایہ ترا،شانہ ترا،باہیں تری

بن تیرے دنیا میں میراہےہی کیا
مجھ میں بستی ہیں صنم سانسیں تری

اک سفرکوچھوڑکرسب ہیں ترے
منزل تری، رہبرترا، راہیں تری

عشق سچا ہےتراتوسعد پھر
کیوں نہیں پہنچیں بتا آہیں تری

Khud ko sanam kade se bachata raha koi


غزل 


خود کو صنم کدے سے بچاتا رہا کوئی 
لہجہ بدل بدل کے بلاتا رہا کوئی 
                                                                                                   
ہم نےشمع جلا ئی زمانےکےواسطے
گھر میں ہمارے آگ لگاتا رہا کوئی 

دوایک ہوں توذکربھی کردوں مگریہاں
عنواں بدل بدل کے ستاتا رہا کوئی 

احسان کرکےہم پہ مسلسل مرےخدا
احساس بےبسی کا دلاتا رہا کوئی 

غیبی مدد کےجھانسےمیں رکھ کرنہ جانےکیوں
راہ عمل سےہم کوہٹاتا رہا کوئی 

نفرت کی بیج بوکےدلوں میں عوام کے
امن واماں کا ڈھونگ رچاتا رہا کوئی 

فاقہ کشی کا درد چھپانےکےواسطے
جھوٹی ہنسی لبوں پہ سجاتا رہا کوئی 

Chalo aisa kareN sub ko bula leN

چلو ایسا کریں سب کو بلالیں
بکھرنےکا نتیجہ ڈھونڈ ڈالیں

شب غم میں سبھی گھلتےہیں تنہا
کوئی شب ساتھ میں اسکا مزالیں

انہیں دیکھا ہے جب سے ہوش گم ہے
نشے میں ہوں مجھے آکر سنبھالیں

تبسم ہو یا ہو دشنام لب پر
ہمارے واسطے کچھ تو نکالیں

Teri hi saughaat hai janaN

غزل

تیری ہی سوغات ہےجاناں
ہرموسم برسات ہےجاناں

اتراؤنہ حسن پہ اپنے
شہ کےپیچھےمات ہےجاناں

میں ہوں صراحی توپیمانہ
اپنی اپنی بات ہےجاناں

تاریکی سےدن کےیارو!
سہمی سہمی رات ہےجاناں

توجوہمارےپاس نہیں ہے
یادوں کی بارات ہےجاناں

سعدکےشعروں میں کچھ ہےتو
بہکی بہکی بات ہےجاناں

Monday, December 6, 2010

Ab or seyaahi na badhaao maula


دعائیہ غزل

اب اور سیاہی نہ بڑھاؤ مولیٰ
دامن کومرےاس سےبچاؤ مولیٰ

مسدود نہ ہوجائیں کہیں رستےسارے
اس راہ پہ اتنا نہ چلاؤ مولیٰ

جس نورسےموسی کوغشی آئی تھی
وہ نور میرے دل میں سجاؤ مولیٰ

دل پھیردو دنیا کے خداؤں سےمرا
یا پاس مجھےاپنےبلاؤ مولیٰ

ہرروز گناہوں میں اضافہ، توبہ!
اس روزکے جھنجھٹ سے بچاؤ مولیٰ

یوں سعد خطاؤں کا ہے پتلا لیکن
کس کا ہے یہ شہکار بتاؤ مولیٰ

یہ شعرہی آنسوں ہیں ندامت کے مرے
رحمت کا نمونہ بھی دکھاؤ مولیٰ


Friday, December 3, 2010

Aaj apna huN na zamaane ka

غزل

آج اپناہوں نہ زمانےکا
یہ نتیجہ ہےدل لگانےکا

ظلم جاری ہےلب پہ پہرہ ہے
کیاسلیقہ ہےآزمانےکا

سارےمرکزہیں مختلط یارو!
کوئی عنواں نہیں فسانےکا

دل حزیں جب ہوا صدا آئی
چوٹ کھانےکا بھول جانےکا

ہم نےسیکھاہےڈھب یہ کلیوں سے
مشکلوں میں بھی مسکرانےکا

اس نےرکنےدیانہیں ہم کو
کتنااحسان ہےزمانےکا

سعد آیاہےوقت اٹھ جاؤ
دل جلانےدیابجھانےکا

Thursday, December 2, 2010

Kaisi guzre hai mukhtasar kahyo

غزل

کیسی گزرے ہے مختصر کہیو
نیند آئے نہ رات بھرکہیو

روزو شب ان کا نام لیتے ہیں
ان سے ملیو تو نامہ بر کہیو

وہ نہیں ہیں تو کچھ خلا سا ہے
سونا سونا ہے میرا گھرکہیو

کچھ تو رکھ لیں بھرم محبت کا
راہ تکتے ہیں رہ گزر کہیو

کون آتا ہے جاکے محفل سے
پھر بھی رہتا ہوں منتظر کہیو

سعد آئے گا ان سے ملنے کو
پورا ہونے کو ہے سفر کہیو

Pahle si ta'alluqaat meN hiddat nahiN rahi


غزل

پہلےسی تعلقات میں حدت نہیں رہی
شایدانہیں ہماری ضرورت نہیں رہی

دستاررہبری ہی کیااخلاق بھی گیا
جوبھی ہمارےپاس تھی دولت نہیں رہی

جادیکھ کمیں گاہ میں کیا - کیاکھلےہیں گل
کس نےکہابہارکوفرصت نہیں رہی

اب ما نگتےہیں اپنی سہولت کی بھیک وہ
کرداررہبراں میں بھی عظمت نہیں رہی

آتےہیں اب ہمارےبھی ماتھےپہ کچھ شکن
مشکل میں مسکرانےکی عادت نہیں رہی

مجبورآہ ونالہ وفریادہوگیا
اب سعدمیں بھی سعد کی خصلت نہیں رہی

GuloN ki naaz bardaari kare he


‌‌‌غزل

گلوں کی ناز برداری کرے ہے
یہ کانٹا خوب عیاری کرے ہے

کوئی غلطاں ہے لمحوں کے سفر میں
کوئی صدیوں کی تیاری کرے ہے

کوئی قطرے کو ترسے ہے زمیں پر
کسی پہ فیض تو جاری کرے ہے

مرا ایمان بھی محبوب سا ہے
کبھی روٹھے کبھی یاری کرے ہے

وہی بخشے سکوں قلب وجگر کو
زمانہ زیست جب بھاری کرے ہے

ہجوم رنج وغم میں آدمی پر
جنوں کی کیفیت طاری کرے ہے

زباں سے کچھ نہیں کہتا ہے لیکن
دلوں کی بات وہ ساری کرے ہے

ہزاروں دشمنوں کا کام یارو
نئی نسلوں کی بےکاری کرے ہے

غزل کی فکر میں ہے غرق اتنا
گماں ہو سعد مے خواری کرہے