غزل
سہانی شام ہو کچھ اہتمام ہو جائے
غزل کا ساتھ ہو آنکھوں سے جام ہو جائے
تمہاری زلف ہے کالی گھٹا کہ ناگن ہے
اسیر زلف کی ہر صبح شام ہو جائے
حمام چھوڑ دے ننگوں کی بھیڑ دنیا میں
جوبات سچ ہے مبادا وہ عام ہو جائے
ہوس کی دوڑ میں ناصح بھی ساتھ ساتھ چلے
خلوص جس میں ہو اس کا مقام ہو جائے
سکوں سفر میں ہو منزل میں اضطراب رہے
کسی مقام پہ یوں انضمام ہو جائے
بہت قریب سے گزرا تھا سعد منزل کے
رکا
نہیں کہ سفر نا تمام ہو جائے