Sunday, July 17, 2011

Nanhe paudon ko jhulasne se bachana hoga


غزل 

ننھے پودوں کو جھلسنے سے بچانا ہوگا
ان کی ماٹی میں لہو پھر سے پلانا ہوگا 

جنہیں جانا ہے ستاروں سے بھی آگے اک دن
انھیں بنیاد کے بارے میں بتانا ہوگا

اپنی بوسیدہ حویلی کو بچانا ہے اگر
ریت پہ محل بنا ہے جو گرانا ہوگا

جس سے روشن تھا مرے گاؤں کا ماضی کا ضمیر
آج شہروں میں وہی دیپ جلانا ہوگا

کوئی آنے کو نہیں خضرومسیحا بن کر
دیس اپنا ہے ہمیں خود ہی چلانا ہوگا

اپنے ماضی کی طرف لوٹ کے دیکھو تو سہی
'سعد' قدموں میں ترے سارا زمانہ ہوگا