غزل
کسی کی یاد میں رو - رو کے تھک گئیں آنکھیں
فجر کی آخری ہچکی میں لگ گئیں آنکھیں
ابھی تو خواب میں آہٹ ملی تھی آمد کی
خدا کی دید سے پہلے ہی جگ گئیں آنکھیں
دھواں- دھواں ہے کہیں تو کہیں لہو منظر
یہ کھیل اب نہ دکھاوکہ پک گئیں آنکھیں
زباں پہ برف کی سردی دلوں میں شعلے ہیں
لوآج اشک کے قطرے سے جل گئیں آنکھیں
گئے وہ دن کہ محبّت کا آئینہ تھیں یہ
یہاں تو سنگ کے سانچے میں ڈھل گئیں آنکھیں
نیا عذاب ہے شاید ہماری بستی پر
دلوں کے بعد مکینو کی مرگئیں آنکھیں
فجر کی آخری ہچکی میں لگ گئیں آنکھیں
ابھی تو خواب میں آہٹ ملی تھی آمد کی
خدا کی دید سے پہلے ہی جگ گئیں آنکھیں
دھواں- دھواں ہے کہیں تو کہیں لہو منظر
یہ کھیل اب نہ دکھاوکہ پک گئیں آنکھیں
زباں پہ برف کی سردی دلوں میں شعلے ہیں
لوآج اشک کے قطرے سے جل گئیں آنکھیں
گئے وہ دن کہ محبّت کا آئینہ تھیں یہ
یہاں تو سنگ کے سانچے میں ڈھل گئیں آنکھیں
نیا عذاب ہے شاید ہماری بستی پر
دلوں کے بعد مکینو کی مرگئیں آنکھیں