Wednesday, August 8, 2012

MERAAJ-E ISHQ

معراج عشق


دل کے کونے میں
ذہن میں کہ زباں پر شائد

میرے احساس میں
ادراک میں
اظہار کے پیرائے میں

سونی یادوں کے سفر میں ہو کہ
امکان کے سائے میں

سچ تو یہ ہے کہ
میری سانسوں کے ہر اک زیروزبر میں بھی کہیں...

میں نے اکثر یہی محسوس کیا ہے جاناں !
میرے پیکر میں تیری ذات بھی رہتی ہے کہیں!!

KHAABON KA IZTERAAB

خوابوں کا اضطراب

وہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا جب میں نے اس وقت کے صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کا یہ قول سنا:
 “Dream, dream, dream; dreams transform into thoughts and thoughts result in action.”
"خواب دیکھیں، خواب دیکھیں، خواب دیکھیں؛ خواب ہی خیالات میں تبدیل ہوتے ہیں اور خیالات حرکت میں۔"
اس قول سے میں بے حد متاٴثر ہوا، اور ہوتا بھی کیوں نہ؟ میں اس وقت جس عمر میں تھا، اس میں انسان خواب ہی تو دیکھتا ہے۔ 
خواب ہی ایک دنیا ہے جہاں کوئی سرحد نہیں ہوتی، کوئی قانون نہیں ہوتا، کوئی رعایا نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی بادشاہ 
اے پی جے عبدالکلام کے اس قول نے میرے خوابوں کی دنیا کو نئی توانائی بخشی۔ میں نے بڑے بڑے خواب دیکھے۔ اتنے بڑے کہ بیان کا کوئی پیرایہ ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حتی کہ بعض نباض اساتذہ نے مجھے حقیقی دنیا میں جینے کا مشورہ دینا شروع کر دیا۔
پھر خوابوں کا حسین سفر تو جاری رہا، لیکن طالب علمی کا زمانہ ختم ہوا۔ زندگی کی حقیقتیں سامنے آئیں، روزگار کے مسئلوں نے منہ چڑھایا اور میں کچھ اپنے رجحان اور کچھ حالات سے مجبور ہوکر صحافی بن گیا۔
صحافت کے ساتھ ساتھ خوابوں کا سفر بھی جاری رہا، بلکہ پروان چڑھتا رہا۔ اس دوران سراب نما منزلیں بھی بدلتی رہیں، پھر ایک مقام آیا جہاں میں چند ثانیوں کے لئے ٹھہر گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں حیران تھا۔ خوابوں کا سفر تو بہت طویل ہو گیا۔ اتنا طویل کہ ابتداء نظروں سے اوجھل ہے اور منزل ، اس سفر میں تو منزل کہیں ہے ہی نہیں۔
میرے اضطراب کی انتہا نہ رہی، سکون چھن گیا اور نیند اڑ گئی۔ میں نے تو کھلی آنکھوں کے ساتھ خوابوں کے سفر پر چلنا شروع کیا تھا۔ پھر اس مقام پر کیوں اور کیسے پہنچ گیا، جہاں سے متعینہ منزل کے سارے راستے مسدود ہیں۔
زندگی کا سفر اسی اضطراب کے ساتھ جاری رہا لیکن خوابوں کا سفر رک گیا۔
میں نے سوچنا شروع کیا کہ ایسا کیوں ہوا؟ آج میں ایک میڈیا ہاوٴس سے منسلک دوسرے درجہ کا صحافی ہوں اور آپ کو یہ بتانے کی پوزیشن میں ہوں کہ میں بہت بڑی غلطی پر تھا۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے خواب اور حقیقت کے درمیان فرق سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ لیکن نہیں ! میں نے خواب کی حقیقت سمجھنے میں غلطی کی تھی۔
میں یہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ خواب بہرحال خواب ہوتا ہے۔ یہ اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب اسے خیالات و نظریات کی بجائے ہدف میں تبدیل کیا جائے۔
خوابوں کی منزل سراب نما ہوتی ہے جبکہ ہدف کی منزل واضح۔