Tuesday, July 1, 2014

غزل...... آنسونہیں یہ خون مقطر ہے میری جان

آنسونہیں یہ خون مقطر ہے میری جان
ایدھن یہی ہے جس سے منور ہے میری جان
مجھ سے گنہ کی رسم کا رشتہ عجیب ہے
شاید ندامتوں کی مقدر ہے میری جان

تھم اے ہوس کی آگ مجھے خاک نہ بنا
ابکے گرا تو موت کی چادر ہے میری جان

اک میں کہ تیرے واسطے پاگل بنا پھروں
اک تو کہ تیرے واسطے پتھر ہے میری جان

اک دو رہے پہ آکے یوں روشن مزاجیاں
بجھتے ہوئے چراغ کا تیور ہے میری جان

یہ کیا ہوا کیوں شہر یہ بت خانہ بن گیا
تو سامری ہے وقت کا آزر ہے میری جان

گو ہاتھ میں گلاب ہے، تھیلے میں کفن ہے
ہر شخص یہاں دست بہ خنجر ہے میری جان

یہ کون ہے کیوں کاٹتا ہے سسکیوں میں رات
یہ سعد ہے، فقیر ہے، شاعر ہے میری جان