Monday, January 12, 2015

کیا مسلمانوں کو دہشت گردی مخالف عالمی مظاہرہ کرنا چاہئے؟

دو دنوں پہلے میں نے فیس بک پر ایک سوال کیا تھا کہ کیا مسلمانوں کو دہشت گردی کی مذمت کے لئے عالمی پیمانے پر کوئی مظاہرہ منعقد کرنا چاہئے؟ کئی جوابات موصول ہوئے، جن میں مثبت اور منفی دونوں تھے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ ہمیں اپنی تنگ نظری اور جذباتیت کے لحاف سے اب باہر نکلنا چاہئے۔ لیکن ہوشیاری سے۔ جذباتیت ہماری کمزوری ہے۔ مخالفین اس کا استعمال ہمیشہ سے ہمارے ہی خلاف کرتے آئے ہیں۔

دہشت گردی کے معاملہ میں آج مسلمانوں کو جذباتی بنیادوں پر دو گروہوں میں بانٹنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک وہ جو تنگ نظر ہے، ہر وہ کام جس میں مسلمان ملوث ہے اس کی حمایت کرتا ہے اور اسے اپنا دینی فریضہ سمجھتا ہے۔ دوسرا وہ جو روشن خیال ہے، یا مذہب کے نام پر ہونے والے تماشوں سے اوب چکا ہے اور اب اس کے خلاف آواز بلند کرنا چاہتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو دو گروہوں میں بانٹنے کی خواہش رکھنے والی طاقتوں کی اصل نظر تیسرے قسم کے مسلمانوں پر ہے اور وہ انہیں ان دونوں میں سے کسی ایک میں ضم ہوجانے کے لئے مجبور کر رہی ہے۔ تیسرے قسم کے مسلمان وہ ہیں جو کسی حد تک عالمی سیاست کو سمجھتے ہیں۔ مذہب کے نام پر ہونے والے تماشوں کی باریکیوں کا جائزہ لیتے ہیں اور خاموش رہتے ہیں۔۔۔

اب واقعہ یہ ہے کہ جب بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے، آپ کے مخالفین (اور کچھ سادہ لوح غیر مسلم/مسلم) آپ پہ چڑھ دوڑتے ہیں کہ دیکھوں تمہارے بھائی نے یہ کیا کیا۔ اس پر تہمارا رد عمل کیا ہے؟ کیا تم اس کی مذمت کرتے ہو؟ اگر ہاں، تب تو ٹھیک ہے، ورنہ آپ بھی طالبانی، داعشی وغیرہ وغیرہ۔ ظاہر ہے کہ آپ اس طرح کے الزامات سن کر پریشان ہو جائیں گے (میں تو ہو گیا تھا)۔ اس طرح سے آپ کو بار بار ٹارچر کیا جائے گا (شارلی ابدو واقعہ کے بعد اس کی ساری حدیں پار کر دی گئیں) اور آپ پریشان ہو کر مذکورہ بالا دونوں میں سے کسی ایک گروہ میں ضم ہو جائیں گے اور ہر دو صورت میں آپ دہشت گرد یا اس کے بھائی کہلائیں گے۔

اس پیچیدہ صورتحال میں ہمیں بے انتہا صبر کا مظاہرہ کرنے کی ضروت ہے۔ رہا سوال دہشت گردی کے خلاف مظاہرہ کا، تو اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہونے والا، کیونکہ وہ آپ سے صرف اتنا ہی نہیں چاہتے۔۔۔

عالمی پیمانہ پر تو مجھے معلوم نہیں، لیکن کل ہند پیمانے پر ماضی میں مسلم علماء نے دہشت گردی کے خلاف زبردست مظاہرہ کیا تھا۔ مجھے امید ہے کہ آپ دارالعلوم دیو بند کے زیر اہتمام منعقد دہشت گردی مخالف اجلاس کو نہیں بھولے ہوں گے۔ اس کے بعد کیا ہوا؟؟؟ یہ کسی سے مخفی نہیں ہے!!!

خلیج میں کمانے والوں سے دو باتیں

آج میں آپ کی توجہ آئندہ ایک سے دو سالوں کے اندر دنیا میں آنے والے شدید مالی بحران کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں، جس پر پہلے سے ہی ماہرین معاشیات میں بحث چل رہی۔ ظاہر ہے کے اس بحران سے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور دیگر ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ روس تو پہلے ہی اس کا شکار ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی میرا کنسرن عالمی یا ملکی پیمانے پر اس کا اثر نہیں ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے اپنے گھر، خاندان اور ساتھ میں نشست و برخاست کرنے والے لوگ اس سے کس حد تک متاثر ہوں گے۔


 یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خوشحال طبقہ کی بڑی تعداد کا چولھا خلیج کی آمدنی سے جلتا ہے۔ اگر آپ کا چولھا بھی ان میں ہی شامل ہے تو ہوشیار ہوجائیے! مجھے امید ہے کہ آپ تیل کی دنیا میں آئی مندی سے واقف ہوں گے۔ اگر ہاں، تو اس سے بھی واقف ہوں گے کہ یہ مندی امریکہ سمیت 10 سے زیادہ ممالک میں "شیل آیل" کی دریافت کے سبب آئی ہے۔ اس مندی میں ملوث حکمت اور سیاست سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ اگلے چند سالوں میں تیل کے قبلے منتشر ہو جائیں۔ دنیا میں تیل کے جتنے خریدار ہوں گے اتنے ہی سپلایر بھی ہوں گے، ایسی صورت میں سب سے سستی قیمت پر تیل فروخت کرنے والا ملک ہی فاتح کہلائے گا، جو کہ سعودی عرب یا کوئی دوسرا خلیجی ملک نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان کی لاگت شیل آیل نکالنے والے ممالک کی لاگت سے بہت زیادہ ہے۔

اس صورتحال کا براہ راست منفی اثر خلیج کی معیشت، اور مثبت اثر متحدہ امریکہ اور کچھ دیگر ممالک پر پڑنے والا ہے۔ خلیجی حکومتیں بشمول سعودی عربیہ بڑے پیمانے پر اپنی معاشی پالیسی میں تبدیلی کریں گی (جس کا آغاز بھی ہو چکا ہے)۔ آنے والے دنوں میں وہاں بڑے پیمانے پر چھٹنی ہو سکتی ہے۔ ناگذیر اسامیوں پر خارجیوں کو مقامیوں سے تبدیل کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان کے پس منظر میں سب سے بڑا اثر مسلم کمیونٹی پر پڑنے کی امید ہے۔

تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت میں مارے جائیں۔ خطرے سے مقابلہ کرنے کا پہلا قدم خطرے کی واقفیت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ فیملی جس کا چولہا گلف کی آمدنی سے جلتا ہے، ابھی سے حکمت عملی تیار کرنا شروع کردے۔ خود روزگار اس کا بہترین متبادل ہو سکتا ہے۔