Wednesday, February 11, 2015

ہاں، عام آدمی پارٹی سنگھ کا مہرہ ہے

انا تحریک سنگھ اسپانسرڈ تھی۔ عام آدمی پارٹی پر بھی مجھے یہی شبہ ہے۔ یہ صدی کی سب سے بڑی سیاسی سازش یا تجربہ کی کڑیاں ہیں۔۔۔ میرا ماننا ہے کہ ملک پر ہندوتو کو تھوپنے کی طویل کوششوں کے بعد سنگھیوں (آر ایس ایس قیادت) کو یہ ادراک ہو چکا ہے کہ ہندوستان کے زیادہ سے زیادہ 31 فیصد لوگوں کو ہی وہ اپنے ساتھ لے کر چل سکتے ہیں۔ باقی آبادی یا تو دوسرے انتہا پسند نظریات سے جڑی ہوئی ہے (جس کی تعداد بہت کم ہے) یا پھر سیکولر ہے۔ اس بار لوک سبھا میں انہیں جو کامیابی حاصل ہوئی ہے وہ ان کی بلندی کی انتہا ہے۔ وہ چاہے جتنے دن بھی اس بلندی پر برقرار رہیں، آگے ان کے لئے پستی ہی ہے۔ اگر سیٹوں کی تعداد سے قطع نظر ووٹ فیصد کو دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہندوستان کی اکثریت نے انہیں رد کر دیا۔ اب زعفرانی خیمے میں اپنی سوچ کے تئیں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ہے، اور یہ زعفرانی خیمہ جسے لوگ عام طور پر مذہبی جنونیت کا شکار سمجھ بیٹھتے ہیں، وہ بالکل نہیں ہے جو نظر آتا ہے۔ یہ کسی بھی حال میں حکومت پر قبضہ جمائے رکھنے کا عزم رکھنے والے نسل وادیوں کی ایک ٹولی ہے، مذہبی انتہا پسندی تو ان کا مکھوٹا ہے۔



اب جب کہ خود ان کے ہی مذہب کو ماننے والوں کی اکثریت نے سیکولرازم کو اپنا سیاسی مذہب بنا لیا ہے، وہ اپنے اس مکھوٹے سے مایوس ہو چکے ہیں۔ انہیں معلوم ہو گیا ہے اگلے 15-20 سالوں میں وہ ارریلیوینٹ ہو کر رہ جائیں گے۔ ایسی صورت میں انہوں نے اپنا ایک سیکولر چہرہ بھی بنانے کی سوچی۔ اس ضمن میں ان کی پہلی کوشش کانگریس کو یرغمال بنانے کی ہوئی (جس کی دلیلیں ہر اس شخص کے پاس ہوں گی جو معمولی سیاسی بصیرت بھی رکھتا ہو) جسے سونیا گاندھی نے اپنی بصیرت اور حکمت عملی سے ناکام کر دیا، اور جب یہ طے ہو گیا کہ کانگریس کی قیادت راہل گاندھی کی طرف شفٹ ہوگی تو وہ اس سے مایوس ہو گئے۔

یہاں سے کانگریس کے خلاف جنگ عظیم کی شروعات ہوتی ہے۔ وہی جنگ عظیم جسے انا تحریک کا نام دیا گیا اور جس سے ایک ساتھ کئی مقاصد حاصل ہوئے (کثیر مقاصدی حکمت عملی کے لئے برہمنی لابی مشہور بھی ہے)۔ اس تحریک سے کانگریس کا چہرہ بری طرح مسخ ہوا، حتیٰ کہ لوگ اس کے اچھے کاموں کے بارے میں بھی سننے کو راضی نہ تھے، لوگ تاریخ کے سب سے باصلاحیت وزیر اعظم کو سب سے ناکارہ وزیر اعظم ماننے لگے، کانگریس نے اپنی عوامی مقبولیت کھو دی، عام آدمی پارٹی کی شکل میں کانگریس کا ظاہری متبادل وجود میں آیا، اسی تحریک کے سبب پیدا ہوئی ناراضگی کے سہارے زعفرانیوں نے اپنے حق میں ووٹوں کا میکسیمم پولرائزیشن دیکھا اور پہلی بار ان کی اکثریت (31 فیصد) کی حکومت بنی۔

بہت جلد ہی (15-20 سالوں میں) بی جے پی سنگھ کا پٹا ہوا مہرہ ثابت ہو جائے گی۔ پھر کون ہوگا جو اس کا مکھوٹا بنے گا؟ اور کیا ایسی حالت میں اچانک کوئی مکھوٹا تیار بھی ہو سکتا ہے؟ ان حالات پر نظر ڈالیے، عام آدمی پارٹی کے شان نزول کا جائزہ لیجئے، دہلی الیکشن کو چھوڑ کر عام آدی پارٹی کی اب تک کی سرگرمیوں کا جائزہ لیجیے اور ان کے مستفید کو تلاش کیجیے، دہلی الیکشن میں بی جے پی کے اوٹ پٹانگ فیصلوں کا جائزہ لیجئے اور یہ معلوم کیجیے کہ ان کا فائدہ کسے ملا تو بہت کچھ آپ پر بھی واضح ہو جائے گا۔

اب آئیے اس نکتے پر نظر ڈالتے ہیں کہ کس طرح سنگھی لابی نے دہلی الیکشن میں عام آدمی پارٹی کی مطلق جیت یقینی بنانے کے لئے راستے ہموار کیے:

- وہی بی جے پی اچانک فاش سیاسی غلطیاں کرنے لگی جو گزشتہ چند سالوں سے کافی نپے تلے فیصلے لے رہی تھی
- بی جے پی نے پارٹی کے کسی وفادار سپاہی کو وزیر اعلیٰ عہدہ کا امیدوار بنانے کی بجائے انا ہزارے کی ٹیم سے کرن بیدی کو متعارف کرایا، حالانکہ سیاست کا ادنیٰ سا طالب علم بھی یہ سمجھ سکتا ہے کسی بھی پارٹی کے کارکنان خارجی امیدوار کو قبول نہیں کریں گے اور ہوا بھی یہی۔ خود بی جے پی کے لوگوں نے پارٹی کو ہرانے میں کوئی کمی نہیں چھوڑی
- عام آدمی پارٹی اور کانگریس نے انتخاب کی بھنک لگتے ہی اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا، لیکن بی جے پی نے اس میں کافی تاخیر سے کام لیا، حتیٰ کہ نامنیشن سے چند روز پہلے بھی سارے امیدوار طے نہیں تھے
- عام آدمی پارٹی کو مسلمانوں اور ان کے خیرخواہوں کے بیشتر ووٹ ملے اور ان کے پولرائزیشن میں بی جے پی نے جو کردار ادا کیا وہ کسی سے مخفی نہیں۔ دہلی میں کئی دہائیوں بعد فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، رام زادے - حرام زادے کی بات کی گئی وغیرہ وغیرہ
- عام آدمی پارٹی کو اگروال سماج کے بیشتر ووٹ ملے ﴿یہ دہلی میں تقریباً بیس فیصد ہیں﴾۔ ان کے ووٹوں کے پولرائزیشن کا موقع بھی کیجریوال کو بی جے پی نے ہی فراہم کیا، وہ بھی بڑی چالاکی سے۔ میرے خیال سے بی جے پی کا وہ اخباری اشتہار سبھوں کو یاد ہوگا جس میں عاپائیوں کو "اپدروی گوتر" کا کہا گیا تھا، جسے کیجریوال نے اپنے آپ کو اگروال سماج کا بتاتے ہوئے اپنے گوتر سے منسوب کر دیا اور اگروال سماج کیجریوال کے ساتھ ہو گیا
- نریند مودی نے اپنی انتخابی تقریر میں کیجریوال کو نکسلی کہا اور جنگل جانے کی نصیحت دے ڈالی۔ نتیجتاً بائیں بازو نے عام آدمی پارٹی کو اعلانیہ حمایت دے دی
- کیجریوال نے بی جے پی کے سورسیز سے ہی جانکاریاں حاصل کر کے خود اسی کے لیڈروں کو بے نقاب کیا، کیسے؟

مجھے نہیں لگتا کہ اتنی ساری سیاسی غلطیاں اس بی جے پی سے بیک وقت ہو سکتی ہیں جس کی باگ ڈور امیت شاہ اور نریند مودی کے ہاتھوں میں ہے۔

ہاں، میں یہ مانتا ہوں کہ سنگھیوں نے جو مقصد طے کیا ہے وہ انہیں حاصل ہو ہی جائے، یہ ضروری نہیں۔ کیونکہ سیاست میں کبھی کبھی اپنے ہی پیادے کھلاڑی کو مات دے دیتے ہیں۔ آپ اپنے پلان پر کنٹرول کر سکتے ہیں، نتائج پر نہیں، اور پھر یہ کہ جمہوری سیاست میں لیڈر اپنے ووٹر کا آئینہ دار ہوتا ہے اور کیجریوال جب بھی جیتیں گے، سیکولر ووٹو سے ہی جیتیں گے۔ آئیے، انتظار کرتے ہیں!