Wednesday, September 5, 2012

In Remembrance of My Teacher

اپنے استاذ کی یاد میں

آج یوم اساتذہ ہے۔ طلبا کے درمیان کچھ خاص قسم کی چہل پہل نظر آ رہی ہے، لیکن میرا ذہن 9 سال پرانے ایک واقعہ میں الجھا ہوا ہے۔ اسے جھٹکنے کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
غالبا 2003 کا کوئی مہینہ تھا، جب میں جامعہ اصلاحیہ سلفیہ میں عالمیت سال اول کا طالب علم ہوا کرتا تھا۔ عید الاضحیٰ کی چھٹی کا اعلان ہونے ہی والا تھا، اس دوران صدر جامعہ شیخ عبدالسمیع جعفری نے ایک ہنگامی میٹنگ طلب کر لی، جس میں تمام اساتذہ کے علاوہ طلبا کی انجمن کے سارے عہدیداروں کو بھی شرکت کے لئے کہا گیا۔ انجمن کے نائب سکریٹری کی حیثیت سے میں بھی اس میں شریک ہوا۔
میٹنگ کے دوران میں نے جہاں طلبا کی لائبریری کے لئے بڑا ہال الاٹ کرنے کی درخواست کی وہیں طلبا کے دیواری پرچہ کو پرنٹ میگزین کی شکل میں شائع کرنے کی تجویذ بھی حسب پروگرام پیش کرڈالی۔ تجویذ منظور ہوئی، اس کی تیاری کی ہدایت بھی جاری کر دی گئی۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے لئے غیر متوقع اورحیران کن تھا۔ صدر جامعہ نے میگزین کی تیاری، امتحان کے سر پر ہونے اور دیگر امور کا حوالہ دیتے ہوئے عیدالضحیٰ کی چھٹی رد کر دی اور میٹنگ برخاست۔
اب تک سارے اساتذہ مجھ سے انتہائی خوش تھے، لیکن چھٹی رد ہوتے ہی بیشتر بدظن ہو گئے۔ کسی نے شوشہ چھوڑ دیا کہ یہ سب کچھ پری پلانڈ تھا۔ سعداللہ نے ہی میگزین نکالنے کے مقصد سے چھٹی رد کروائی ہے۔ بات طلبا تک پہنچی۔ چند خاص دوستوں کے علاوہ ہاسٹل میں مقیم سارے طلبا مشتعل ہوگئے۔ حتیٰ کہ ان کی ایک ٹولی مجھے مارنے کے لئے تلاش کرنے لگی۔ اس معاملے میں میری حصے داری صفر ہونے کے باوجود میں ایک فریق بن گیا۔ پہلے تو میں نے بھی جوش کھایا، لیکن حالات کی سنجیدگی اور سنگینی کا احساس ہوتے ہی سہم گیا اور مسجد میں پناہ لے لی۔ حالات میرے کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے۔ میں ڈر رہا تھا کہ مجھے مارنے کے لئے اتاولی ہو رہی طلبا کی ٹولی کے ہاتھ نہ لگ جاوٴں۔
اسی ہنگامہ آرائی کے بیچ مشفق استاذ شیخ جواد اعجاز تیمی نے مداخلت کی، جو اس وقت جامعہ کے پرنسپل بھی تھے۔ اولا انہوں نے نگراں عقیل صاحب کے ساتھ پورے جامعہ کا دورہ کیا، پھر ایک جونئر طالب علم کے ذریعہ مجھے طلب کیا اور شام تک کے لئے جامعہ سے باہر چلے جانے کو کہا۔ میں چلا گیا اور پٹنہ کی سڑکوں پر بھٹکنے لگا۔ پھر رات کے تقریبا 9 بجے جامعہ واپس آ گیا۔ اب طلبا اور ساتھیوں کا ذہن بدل چکا تھا۔ بیشتر شرمندہ نظر آرہے تھے۔
شیخ جواد نے نہ صرف طلبا کو سمجھایا بلکہ استذہ کی بد گمانی بھی دور کر دی۔ نتیجتا مجھے پھر سے مشفق اساتذہ کی رہنمائی، تعاون اور پیار ملنے لگا۔
یوں تو سارے اساتذہ میرے لئے قابل قدر ہیں۔ لیکن بعض سے ان کی شفقت و محبت اور خلوص کی وجہ سے بڑا جذباتی تعلق بنا، جو شائد کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ شیخ جواد ایسے ہی اساتذہ میں سر فہرست ہیں۔ انہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی، بلکہ انگلی پکڑ کے چلایا۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انہی کی شفقتوں اور رہنمائی کی وجہ سے ہوں۔
حالانکہ کئی موقعوں پر میں ان سے شدید اختلاف بھی کر بیٹھا، لیکن وہ واقعی عظیم ہیں، انہوں نے میری گستاخیوں کو نظر انداز کر دیا۔ 

4 comments: