Monday, September 17, 2012

How BJP will respond to farmers?

کسانوں کو کیا جواب دی گی بی جے پی؟

ہمیشہ جذباتی کارڈ کھیلنے والی بی جے پی اپنی حکمرانی والی ریاستوں میں تو کسانوں کے لئے کچھ بھی نہ کر پائی۔ لیکن جب مرکزی حکومت نے خوردہ بازار میں ایف ڈی آئی کی شکل میں اس جانب ایک ٹھوس قدم اٹھایا تو اس کے خلاف محاذ آرا ہو گئی اور کسانوں کو حاصل ہونے والے بڑے فائدوں سے محروم کر دینے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ اس کا یہ رویہ لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کر رہا ہے کہ "بی جےپی نے 'حزب اختلاف برائے اختلاف' کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے حکومت کے فلاحی اقدامات کی نری مخالفت کرنے کی قسم کھا رکھی ہے"۔
14 ستمبر کو جیسے ہی حکومت کا یہ فیصلہ سامنے آیا، بی جے پی نے اپنے ہم نوا میڈیا گھرانوں کی مدد سے کسانوں کی ہمدردی کا راگ الاپنا شروع کر دیا، وہ بھی مگرمچھی آنسو کے جذباتی امتزاج کے ساتھ ۔ اس کے پاس بیان کرنے کے لئے صرف ایک ہی نکتہ ہے اور وہ بھی بے بنیاد کہ ایف ڈی آئی سے کسانوں کو ان کی پیداوار کی مناسب قیمت نہیں ملے گی۔ لیکن ہندستان اب جذباتیت کی لائن سے بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ آج کے روشن خیال ہندستان کو اپنے نظریات سے مطمئن کرنے کے لئے ٹھوس اور قابل قبول دلیلوں کی ضرورت ہوتی ہے، جوکہ بی جے پی کے پاس بالکل نہیں ہے۔ اور ہو بھی کیسے، جبکہ مرکزی حکومت کا یہ فیصلہ کسانوں کے مفاد کےعین مطابق ہے۔
یہ وہی بی جے پی ہے جس کی حکمرانی میں مدھیہ پردیش کے کسانوں نے ہزاروں ٹن پیاز اور پنجاب کے کسانوں نے ہزاروں ٹن آلو کو زخیرہ اندوزی کے وسائل اور خریدار کی کمی کے سبب سڑنے کے لئے چھوڑ دیا تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ مدھیہ پردیش کے وزیر برائے زراعت ڈاکٹر رام کرشنا نے کسانوں پر نقد کمانے کی لالچ میں پیاز کی فصل برباد کرنے کا الزام عائد کر دیا۔ پھر میڈیا کے ذریعہ سوالات کئے جانے پر انہوں نے ذخیرہ اندوزی کا نظم نہ ہونے کو فصل کی بربادی کا ثانوی سبب تسلیم کیا تھا۔
ان دونوں مقامات پر آلو اور پیاز کی افسوسناک اور مجرمانہ بربادی کے دو بنیادی اسباب__اسٹوریج کا نظم اور خریدار نہ ہونا__ سامنے آئے، جسے خود متاثرہ کسانوں اور بی جے پی نے تسلیم کیا تھا۔ خوردہ فروشی میں ایف ڈی آئی ان دونوں مسئلوں کا حل لے کر سامنے آیا ہے۔
اس نکتے کو سمجھنے کے لئے ایف ڈی آئی کی شرائط کے ان نکات کا جائزہ لینا ضروری ہے:
·         غیر ملکی کمپنیوں کے لئے ضروری ہوگا کہ کم از کم 30 فیصد سامان گھریلو بازار سے خریدیں
·         کل راست غیرملکی سرمایہ کاری کا کم سے کم 50 فیصد سرمایہ کاری کے تین سال کے اندر بیکینڈ بنیادی ڈھانچے میں لگایا جائے گا۔ اس میں اثاثی اخراجات بھی شامل ہوں گے۔ یہ سرمایہ کاری پروسیسنگ، مینوفیکچرنگ، تقسیم، ڈیزائن، معیار کی بہتری، کوالیٹی کنٹرول، پیکیجنگ، ذخیرہ اندوزی، گوڈاوٴننگ، زراعت بازار اور مصنوعات سے متعلق بنیادی ڈھانچے میں کی جائے گی۔ زمین کی لاگت اور کرایوں پر کئے گئے اخراجات کو بیکینڈ بنیادی ڈھانچے میں نہیں شمار کیا جائے گا
·         غیر ملکی کمپنیوں کو صرف 2011 کی مردم شماری کے مطابق 10 لاکھ سے زیادہ آبادی والے شہروں میں ہی اسٹور کھولنے کی اجازت ہوگی، بشرطے کہ ایسے شہروں کی میونسپلٹی / شہری سرحد تقریبا 10 کلو میٹر کے علاقے تک پھیلی ہو
ان تینوں نکات سے یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ایف ڈی آئی کسانوں کے فائدے کا سودا ہے۔ غیر ملکی کمپنیوں کے لئے چونکہ 30 فیصد خریداری گھریلوبازار سے کرنا لازمی ہے، اس لئے وہ کسانوں کو نظر انداز نہیں کر سکیں گی۔ اس سے کسانوں کو بچولیوں سے نجات مل جائے گی اور ڈائریکٹ کلائنٹ ملنے کے سبب ان کو اپنی فصل کی مناسب قیمت بھی حاصل ہوگی۔
کل سرمایہ کاری کا 50 فیصد بنیادی ڈھانچہ میں لگانے کی شرط یہ یقینی بنائے گی کہ غیر ملکی کمپنیاں یہاں آ کر صرف تجارت نہ کریں، بلکہ بنیادی ڈھانچہ کو ترقی دے کر مجموعی طور پر ملک کی ترقی کو رفتار دیں۔ اس سے کسانوں کو ذخیرہ اندوزی کے لئے انفرا اسٹرکچر مل جائے گا اور انہیں اپنے خون پسینہ کی محنت سے اگائی ہوئی فصل کو اپنے ہی ہاتھوں تباہ نہیں کرنا پڑے گا۔
10 لاکھ سے زیادہ آبادی والی شرط کسانوں کو یہ احساس تحفظ دے گی کہ غیر ملکی کمپنیاں براہ راست ان کے گھریلو بازار میں کوئی مداخلت نہیں کر سکیں گی اور ان کے روایتی صارفین حسب سابق بنے رہیں گے۔ غیر ملکی کمپنیوں کی حیثیت ان کے لئے اضافی صارفین کی ہوگی، نہ کہ کمپٹیٹر کی۔
لیکن بی جے پی کو کسانوں کو حاصل ہونے والے ان فائدوں سے کوئی مطلب نہیں ہے۔ اسے تو اپنی سیاسی مفاد پرستی عزیز ہے، وہ بھی اس حد تک کہ اسے اپنی فصل اپنے ہی ہاتھوں تباہ کر دینے والے کسانوں پر ایک اور نفسیاتی دباوٴ پڑنے کا بھی خیال نہیں ہے۔ اسے تو چاہئے تھا کہ ایک ذمہ دار اپوزیشن کی حیثیت سے اس فیصلے کو قبول کرتی اور کسانوں کو نفسیاتی دباوٴ سے باہر نکلنے کا موقع فراہم کرتی۔ لیکن یہ اپنی پالیسی کے ہاتھوں مجبور ہے۔
آخر بی جے پی اپنے ستائے ہوئے ان غریب کسانوں کو کیا جواب دے گی؟

Thursday, September 6, 2012

Adhoori Ghazal

ادھوری غزل

گناہ گار نہ ہوتا تو جانے کیا ہوتا
حصار ذات کے محور پہ میں فنا ہوتا
نہ مجھ پہ راز یہ دنیا کے منکشف ہوتے
نہ تیری ذات سے میرا یہ واسطہ ہوتا
میں اپنی ذات میں بے داغ پارسا ہوتا
پھر وہ مقام بھی آتا کہ میں خدا ہوتا
ہمیشہ چاہنے والوں سے میں گھرا ہوتا
تری تلاش میں تجھ سے ہی میں جدا ہوتا

Wednesday, September 5, 2012

Ek Sher

گنہ سے پاک ہو تو زندگی ادھوری ہے
گناہ گار بھی ہونا بہت ضروری ہے

In Remembrance of My Teacher

اپنے استاذ کی یاد میں

آج یوم اساتذہ ہے۔ طلبا کے درمیان کچھ خاص قسم کی چہل پہل نظر آ رہی ہے، لیکن میرا ذہن 9 سال پرانے ایک واقعہ میں الجھا ہوا ہے۔ اسے جھٹکنے کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہو رہی ہیں۔
غالبا 2003 کا کوئی مہینہ تھا، جب میں جامعہ اصلاحیہ سلفیہ میں عالمیت سال اول کا طالب علم ہوا کرتا تھا۔ عید الاضحیٰ کی چھٹی کا اعلان ہونے ہی والا تھا، اس دوران صدر جامعہ شیخ عبدالسمیع جعفری نے ایک ہنگامی میٹنگ طلب کر لی، جس میں تمام اساتذہ کے علاوہ طلبا کی انجمن کے سارے عہدیداروں کو بھی شرکت کے لئے کہا گیا۔ انجمن کے نائب سکریٹری کی حیثیت سے میں بھی اس میں شریک ہوا۔
میٹنگ کے دوران میں نے جہاں طلبا کی لائبریری کے لئے بڑا ہال الاٹ کرنے کی درخواست کی وہیں طلبا کے دیواری پرچہ کو پرنٹ میگزین کی شکل میں شائع کرنے کی تجویذ بھی حسب پروگرام پیش کرڈالی۔ تجویذ منظور ہوئی، اس کی تیاری کی ہدایت بھی جاری کر دی گئی۔ لیکن اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے لئے غیر متوقع اورحیران کن تھا۔ صدر جامعہ نے میگزین کی تیاری، امتحان کے سر پر ہونے اور دیگر امور کا حوالہ دیتے ہوئے عیدالضحیٰ کی چھٹی رد کر دی اور میٹنگ برخاست۔
اب تک سارے اساتذہ مجھ سے انتہائی خوش تھے، لیکن چھٹی رد ہوتے ہی بیشتر بدظن ہو گئے۔ کسی نے شوشہ چھوڑ دیا کہ یہ سب کچھ پری پلانڈ تھا۔ سعداللہ نے ہی میگزین نکالنے کے مقصد سے چھٹی رد کروائی ہے۔ بات طلبا تک پہنچی۔ چند خاص دوستوں کے علاوہ ہاسٹل میں مقیم سارے طلبا مشتعل ہوگئے۔ حتیٰ کہ ان کی ایک ٹولی مجھے مارنے کے لئے تلاش کرنے لگی۔ اس معاملے میں میری حصے داری صفر ہونے کے باوجود میں ایک فریق بن گیا۔ پہلے تو میں نے بھی جوش کھایا، لیکن حالات کی سنجیدگی اور سنگینی کا احساس ہوتے ہی سہم گیا اور مسجد میں پناہ لے لی۔ حالات میرے کنٹرول سے باہر ہو گئے تھے۔ میں ڈر رہا تھا کہ مجھے مارنے کے لئے اتاولی ہو رہی طلبا کی ٹولی کے ہاتھ نہ لگ جاوٴں۔
اسی ہنگامہ آرائی کے بیچ مشفق استاذ شیخ جواد اعجاز تیمی نے مداخلت کی، جو اس وقت جامعہ کے پرنسپل بھی تھے۔ اولا انہوں نے نگراں عقیل صاحب کے ساتھ پورے جامعہ کا دورہ کیا، پھر ایک جونئر طالب علم کے ذریعہ مجھے طلب کیا اور شام تک کے لئے جامعہ سے باہر چلے جانے کو کہا۔ میں چلا گیا اور پٹنہ کی سڑکوں پر بھٹکنے لگا۔ پھر رات کے تقریبا 9 بجے جامعہ واپس آ گیا۔ اب طلبا اور ساتھیوں کا ذہن بدل چکا تھا۔ بیشتر شرمندہ نظر آرہے تھے۔
شیخ جواد نے نہ صرف طلبا کو سمجھایا بلکہ استذہ کی بد گمانی بھی دور کر دی۔ نتیجتا مجھے پھر سے مشفق اساتذہ کی رہنمائی، تعاون اور پیار ملنے لگا۔
یوں تو سارے اساتذہ میرے لئے قابل قدر ہیں۔ لیکن بعض سے ان کی شفقت و محبت اور خلوص کی وجہ سے بڑا جذباتی تعلق بنا، جو شائد کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔ شیخ جواد ایسے ہی اساتذہ میں سر فہرست ہیں۔ انہوں نے قدم قدم پر میری رہنمائی کی، بلکہ انگلی پکڑ کے چلایا۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں، انہی کی شفقتوں اور رہنمائی کی وجہ سے ہوں۔
حالانکہ کئی موقعوں پر میں ان سے شدید اختلاف بھی کر بیٹھا، لیکن وہ واقعی عظیم ہیں، انہوں نے میری گستاخیوں کو نظر انداز کر دیا۔ 

Wednesday, August 8, 2012

MERAAJ-E ISHQ

معراج عشق


دل کے کونے میں
ذہن میں کہ زباں پر شائد

میرے احساس میں
ادراک میں
اظہار کے پیرائے میں

سونی یادوں کے سفر میں ہو کہ
امکان کے سائے میں

سچ تو یہ ہے کہ
میری سانسوں کے ہر اک زیروزبر میں بھی کہیں...

میں نے اکثر یہی محسوس کیا ہے جاناں !
میرے پیکر میں تیری ذات بھی رہتی ہے کہیں!!

KHAABON KA IZTERAAB

خوابوں کا اضطراب

وہ میری طالب علمی کا زمانہ تھا جب میں نے اس وقت کے صدر جمہوریہ اے پی جے عبدالکلام کا یہ قول سنا:
 “Dream, dream, dream; dreams transform into thoughts and thoughts result in action.”
"خواب دیکھیں، خواب دیکھیں، خواب دیکھیں؛ خواب ہی خیالات میں تبدیل ہوتے ہیں اور خیالات حرکت میں۔"
اس قول سے میں بے حد متاٴثر ہوا، اور ہوتا بھی کیوں نہ؟ میں اس وقت جس عمر میں تھا، اس میں انسان خواب ہی تو دیکھتا ہے۔ 
خواب ہی ایک دنیا ہے جہاں کوئی سرحد نہیں ہوتی، کوئی قانون نہیں ہوتا، کوئی رعایا نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی بادشاہ 
اے پی جے عبدالکلام کے اس قول نے میرے خوابوں کی دنیا کو نئی توانائی بخشی۔ میں نے بڑے بڑے خواب دیکھے۔ اتنے بڑے کہ بیان کا کوئی پیرایہ ان کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حتی کہ بعض نباض اساتذہ نے مجھے حقیقی دنیا میں جینے کا مشورہ دینا شروع کر دیا۔
پھر خوابوں کا حسین سفر تو جاری رہا، لیکن طالب علمی کا زمانہ ختم ہوا۔ زندگی کی حقیقتیں سامنے آئیں، روزگار کے مسئلوں نے منہ چڑھایا اور میں کچھ اپنے رجحان اور کچھ حالات سے مجبور ہوکر صحافی بن گیا۔
صحافت کے ساتھ ساتھ خوابوں کا سفر بھی جاری رہا، بلکہ پروان چڑھتا رہا۔ اس دوران سراب نما منزلیں بھی بدلتی رہیں، پھر ایک مقام آیا جہاں میں چند ثانیوں کے لئے ٹھہر گیا اور پیچھے مڑ کر دیکھا۔ میں حیران تھا۔ خوابوں کا سفر تو بہت طویل ہو گیا۔ اتنا طویل کہ ابتداء نظروں سے اوجھل ہے اور منزل ، اس سفر میں تو منزل کہیں ہے ہی نہیں۔
میرے اضطراب کی انتہا نہ رہی، سکون چھن گیا اور نیند اڑ گئی۔ میں نے تو کھلی آنکھوں کے ساتھ خوابوں کے سفر پر چلنا شروع کیا تھا۔ پھر اس مقام پر کیوں اور کیسے پہنچ گیا، جہاں سے متعینہ منزل کے سارے راستے مسدود ہیں۔
زندگی کا سفر اسی اضطراب کے ساتھ جاری رہا لیکن خوابوں کا سفر رک گیا۔
میں نے سوچنا شروع کیا کہ ایسا کیوں ہوا؟ آج میں ایک میڈیا ہاوٴس سے منسلک دوسرے درجہ کا صحافی ہوں اور آپ کو یہ بتانے کی پوزیشن میں ہوں کہ میں بہت بڑی غلطی پر تھا۔
شاید آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں نے خواب اور حقیقت کے درمیان فرق سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ لیکن نہیں ! میں نے خواب کی حقیقت سمجھنے میں غلطی کی تھی۔
میں یہ نہیں سمجھ سکا تھا کہ خواب بہرحال خواب ہوتا ہے۔ یہ اسی وقت مفید ہو سکتا ہے جب اسے خیالات و نظریات کی بجائے ہدف میں تبدیل کیا جائے۔
خوابوں کی منزل سراب نما ہوتی ہے جبکہ ہدف کی منزل واضح۔ 

Saturday, June 23, 2012

BARF PIGHLI WAFA KI HIDDAT SE

برف پگھلی وفا کی حدت سے
پھر ملا ٹوٹ کر وہ شدت سے
اجنبی سا لگا مرا چہرا
خود کو دیکھا نہیں تھا مدت سے