غزل
کیسی گزرے ہے مختصر کہیو
نیند آئے نہ رات بھرکہیو
روزو شب ان کا نام
لیتے ہیں
ان سے ملیو تو نامہ
بر کہیو
وہ نہیں ہیں تو کچھ
خلا سا ہے
سونا سونا ہے میرا
گھرکہیو
کچھ تو رکھ لیں بھرم
محبت کا
راہ تکتے ہیں رہ
گزر کہیو
کون آتا ہے جاکے
محفل سے
پھر بھی رہتا ہوں
منتظر کہیو
سعد آئے گا ان سے ملنے کو
پورا ہونے کو ہے
سفر کہیو
Dekhna ek roz gir jaye gi ye deeware hayat
ReplyDeleteke ret ke zarrat hai silsla thahra hua