غزل
خود کو صنم کدے سے بچاتا رہا کوئی
لہجہ بدل بدل کے بلاتا رہا کوئی
ہم نےشمع جلا ئی زمانےکےواسطے
گھر میں ہمارے آگ لگاتا رہا کوئی
دوایک ہوں توذکربھی کردوں مگریہاں
عنواں بدل بدل کے ستاتا رہا کوئی
احسان کرکےہم پہ مسلسل مرےخدا
احساس بےبسی کا دلاتا رہا کوئی
غیبی مدد کےجھانسےمیں رکھ کرنہ جانےکیوں
راہ عمل سےہم کوہٹاتا رہا کوئی
نفرت کی بیج بوکےدلوں میں عوام کے
امن واماں کا ڈھونگ رچاتا رہا کوئی
فاقہ کشی کا درد چھپانےکےواسطے
جھوٹی ہنسی لبوں پہ سجاتا رہا کوئی
No comments:
Post a Comment