غزل
پہلےسی
تعلقات میں حدت نہیں رہی
شایدانہیں
ہماری ضرورت نہیں رہی
دستاررہبری
ہی کیااخلاق بھی گیا
جوبھی
ہمارےپاس تھی دولت نہیں رہی
جادیکھ
کمیں گاہ میں کیا - کیاکھلےہیں گل
کس
نےکہابہارکوفرصت نہیں رہی
اب
ما نگتےہیں اپنی سہولت کی بھیک وہ
کرداررہبراں
میں بھی عظمت نہیں رہی
آتےہیں
اب ہمارےبھی ماتھےپہ کچھ شکن
مشکل
میں مسکرانےکی عادت نہیں رہی
مجبورآہ
ونالہ وفریادہوگیا
اب
سعدمیں بھی سعد کی خصلت نہیں رہی
No comments:
Post a Comment