Monday, January 12, 2015

خلیج میں کمانے والوں سے دو باتیں

آج میں آپ کی توجہ آئندہ ایک سے دو سالوں کے اندر دنیا میں آنے والے شدید مالی بحران کی طرف مبزول کرانا چاہتا ہوں، جس پر پہلے سے ہی ماہرین معاشیات میں بحث چل رہی۔ ظاہر ہے کے اس بحران سے عرب ممالک کے ساتھ ساتھ ہندوستان اور دیگر ممالک بھی بری طرح متاثر ہوں گے۔ روس تو پہلے ہی اس کا شکار ہو چکا ہے۔ لیکن ابھی میرا کنسرن عالمی یا ملکی پیمانے پر اس کا اثر نہیں ہے۔ میں یہ سوچ رہا ہوں کہ ہمارے اپنے گھر، خاندان اور ساتھ میں نشست و برخاست کرنے والے لوگ اس سے کس حد تک متاثر ہوں گے۔


 یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے خوشحال طبقہ کی بڑی تعداد کا چولھا خلیج کی آمدنی سے جلتا ہے۔ اگر آپ کا چولھا بھی ان میں ہی شامل ہے تو ہوشیار ہوجائیے! مجھے امید ہے کہ آپ تیل کی دنیا میں آئی مندی سے واقف ہوں گے۔ اگر ہاں، تو اس سے بھی واقف ہوں گے کہ یہ مندی امریکہ سمیت 10 سے زیادہ ممالک میں "شیل آیل" کی دریافت کے سبب آئی ہے۔ اس مندی میں ملوث حکمت اور سیاست سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ اگلے چند سالوں میں تیل کے قبلے منتشر ہو جائیں۔ دنیا میں تیل کے جتنے خریدار ہوں گے اتنے ہی سپلایر بھی ہوں گے، ایسی صورت میں سب سے سستی قیمت پر تیل فروخت کرنے والا ملک ہی فاتح کہلائے گا، جو کہ سعودی عرب یا کوئی دوسرا خلیجی ملک نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ ان کی لاگت شیل آیل نکالنے والے ممالک کی لاگت سے بہت زیادہ ہے۔

اس صورتحال کا براہ راست منفی اثر خلیج کی معیشت، اور مثبت اثر متحدہ امریکہ اور کچھ دیگر ممالک پر پڑنے والا ہے۔ خلیجی حکومتیں بشمول سعودی عربیہ بڑے پیمانے پر اپنی معاشی پالیسی میں تبدیلی کریں گی (جس کا آغاز بھی ہو چکا ہے)۔ آنے والے دنوں میں وہاں بڑے پیمانے پر چھٹنی ہو سکتی ہے۔ ناگذیر اسامیوں پر خارجیوں کو مقامیوں سے تبدیل کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہندوستان کے پس منظر میں سب سے بڑا اثر مسلم کمیونٹی پر پڑنے کی امید ہے۔

تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم غفلت میں مارے جائیں۔ خطرے سے مقابلہ کرنے کا پہلا قدم خطرے کی واقفیت ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر وہ فیملی جس کا چولہا گلف کی آمدنی سے جلتا ہے، ابھی سے حکمت عملی تیار کرنا شروع کردے۔ خود روزگار اس کا بہترین متبادل ہو سکتا ہے۔

No comments:

Post a Comment